Wednesday 3 August 2011

صبر کے غیر فانی لمحے



سردیوں کی ایک گہری کالی ٹھنڈی اوربھیگی رات تھی
میری اور لیلیٰ کی منزل
 ’’چاپری‘‘ کے آخری کہسار پر
اپنے اک پختون ساتھی کی حویلی کی تھی
 نیلی خواب گاہ
چیپ بل کھاتی ہوئی کچی سٹرک پر
 چل رہی تھی شام سے
اور گہرے چمپ اس کو
 میرے اوپر ڈھیر کرتے جارہے تھے
ایک حد تک اس میں شامل تھے
خود اسکی اپنی جنسی خواہشوں کے ولولے 
لمس کی حدت سے تپتی جارہی تھیں
میری بھی شادابیاں
یعنی پتھر کا بدن اب موم ہوتا جارہا تھا
اور ابھی باقی تھا چودہ میل کا
 پرپیچ لمبا راستہ
وقت سے پہلے سفر آغاز کرنے سے بسا اوقات
موسمی حالات منزل چھین لیتے ہیں


No comments:

Post a Comment