Wednesday 3 August 2011

قضا نہیں ہونا تجھے



لوح کا راستہ ، دھوپ کے شامیانوں سے ڈھانپا ہوا
اجنبی اجنبی چاپ سنتا رہا ۔۔۔۔ساتھ چلتا رہا 
اور پھر ایک دن ۔دس محرم کی آنکھوں سے نکلا ہوا
اک سنہری کنول
یوں اچھالا افق کی شفق جھیل میں۔۔۔
شام کے وقت نے
جیسے ابلیس سکہ کوئی
 پھینک دے رحمِ تاریخ کے سرخ کشکول میں
آسماں رک گیا۔۔۔ رک گیا آسماں
سو گیا اجتماعی لحد میں کہیں زندگی کا دمشق
میں نے سوچا کہ ایسے میں بہتے نہیں اشکِ آب فرات
راستہ روک ۔۔۔ پہلے پڑائو کے خیمے لگا
اور پھرشام کی بازگشتوں میں بہتی اذاں
مجھ سے کہنے لگی
وقت کو ضائع کرنا گناہِ کبیرہ سے بھی بڑھ کے ہے
قبلہ رُو ہو کے ’’لبیک ‘‘میں نے کہا
کوئی شہ رگ کے اندر سے کہنے لگا
کہ نمازیں قضالوٹ سکتی ہیں لیکن
 قضا ساعتیں لوٹ سکتی نہیں


No comments:

Post a Comment