Wednesday 3 August 2011

کھلم کھلی جیل





میرے ساتھ کے قیدی ۔۔
 روز شکایت کرتے تھے
جیل کے کمرے تنگ بہت ہیں۔۔۔۔۔
موت کے سائے سنگ بہت ہیں 
بند ہے جیون صندوقوں میں ۔۔۔۔
آگ اگلتی بندوقوں میں 
چند صحافی جیل میں آئے 
اخباروں کی خبریں بن کر
چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں سے
 زخم نکل کرجاپہنچے ایوانوں تک
نازک ذہن حکومت کے
تجریدی آرٹ کے شہ پاروں کو سوچنے والے 
مہ پاروں کوسوچنے والے 
نرم ملائم آوازوں سے لطف اٹھانے والے 
خوگرپیار جھمیلوں کے، 
عادی خوابیدہ کھیلوں کے
اور مسائل جیلوں کے
ان کی سوچ سے باہر تھے
سوچتے تھے 
آبادی میں روز اضافہ ہوگا
روز شکایت ہوگی
کب تک ہم تعمیر کریں گے
 جیل کے کمرے
اس عقدے کے سلجھانے میں 
اپنی ساری عقل لگادی
کافی سوچ بچار کے بعد ۔۔
اپنے محلوں سے باہر کی دنیا جیل بنادی

No comments:

Post a Comment