Wednesday 3 August 2011

پنجوں کے بل چلنے کی اذیت






وہ اسی میز پہ بیٹھے اسی طرح ۔۔۔ بہت رات گئے
سامنے ان کے وہی دودھ کو ڈستا ہوا قہوہ بھی ہے
مسئلے بھی وہی ۔۔۔معروضی حقائق سے گریز
بھاپ اٹھتی ہوئی چینک سے
سگاروں سے نکلتے ہوئے مرغولوں میں
خارجیت کی کوئی سرخ لکیر
میز پر گھومتے کچھ دائرے چینی کو ملانے والے
بحث کرتے ہوئے تجریدی فسوں کاری پر
چائے کے بجتے ہوئے گرم پیالے گم سم
جن سے اٹھتی ہوئی بھاپوں میں مرے پانچ برس
جانے کس طرح ہوا گئے معلوم نہیں
میں نہیں ۔۔۔ آج نہیں ہوں ان میں 
اب تاسف سا بھی کیا ہونا ہے 
ہونے اور نہ ہونے کا مجھے
ان کو بے انت خوشی میرے نہ ہونے پہ تو ہے
ان کے چہرے توگلابوں کی طرح تازہ ہیں
آج کا دن بھی ’’بڑا دن ‘‘ ہے کوئی،ان کیلئے
یومِ مسرت ہے کوئی
سوچتا ہوں کہ کوئی پانچ
ان کی صحبت میں رہا ہوں میں بھی
میری قامت میں کوئی فرق تو آیا ہوگا
میں ہمالہ تھا
مگر جھک کے سکیسر کی طرح
جب بھی ملتا تھا وہ مغرور ہوا کرتے تھے
اپنے پنچوں پہ کھڑا ہو کے مرا ساتھ دیا کرتے تھے
اپنی ایڑھی کو ہمہ اٹھا کر چلنا
کتنا بے رحم علم ہے ، مجھے معلوم نہ تھا


No comments:

Post a Comment