Wednesday 3 August 2011

محبت یلئے تین نظمیں



نئی سوچ


کتابوں میں رکھے ہوئے خواب دیمک زدہ ہو گئے ہیں 
زندگی کمپیوٹر کی چِپ میں کہیں کھو گئی ہے
اڑانوں کے نوچے ہوئے آسماں سے
 چرائے ہوئے چاند تارے
مری خاک کی تجربہ گاہ میں 
اب پڑے۔۔ ڈر رہے ہیں
زمیں اپنے جوتوں کی ایڑھی کے نیچے
انہیں نہ لگادے کہیں
اجالوں کی رحمت بھری دھوپ
 چمگادڑوں کی نظر میں ملا دی گئی ہے
عجائب گھروں میں پرانے زمانے کی مضبوط انگیا
اور ماضی سے وابستہ شہوت کی کھالیں
 سجادی گئی ہیں
اک امرد پرستی کے بازار کے
 بدعمل پادری کے گلے کی صلیبیں
مسیحا کی چھاتی کی زینت بنا دی گئی ہیں
ازل سے گزرتے ہوئے وقت کے سنگ کی ایک تحریر ۔۔ میرا بدن
میں صدیوں پرانا کوئی شخص ہوں
مجھے اپنی آنکھیں پرانی لحد میں چھپانی پڑی ہیں
مجھے اپنے کانوں میں سیسے کا سیال بھرنا پڑا ہے
مگر کچھ سوالوں بھری ۔۔زپ ہوئی ایک فائل۔۔
آتے ہوئے وقت کے فولڈر میں
’’نئی سوچ ‘‘کے نام سے رکھ رہا ہوں۔۔
اسے دیکھ لینا۔



ان زپ فائل


کتابوں میں رکھے ہوئے تتلیوں کے پروں کی شفق اب کہاں جائے گی
درختوں پہ لکھے ہوئے نام سے
یار کو بھیجنے والے رومال پر
سرخ ریشم کے ہوتے ہوئے کام سے
رنگ و خوشبو کے مہکے ہوئے بام سے
ہجر کی صبح سے ، وصل کی شام سے
گفتگو کرنے والا
مرے جیسا ٹوٹے ہوئے خواب شب بھر رفو کرنے والا کہاں جائے گا

رسپانس


تمہیں اپنے ہاتھوں کو
آرے سے کیوں کاٹنا پڑ گیا ہے
تمہیں اپنے پائوں سے بھاری چٹانوں کو
کیوں باندھنا پڑ گیا ہے
کہو نور سے تیز رفتار
اڑتے پرندوں پہ بیٹھے ہوئے خاک رو۔۔کچھ کہو
کچھ کہو کمپیوٹر کی بڑھتی ہوئی
دسترس کے جہاں ساز ماحول نے
کس بلندی سے تجھ نوازا کہو۔
سوچنے پر میسر جہاں چیز ہو جاتی تھی۔۔
۔وہ بہشتِ حسیں
جس کا وعدہ تھا
وہ سر خوشی خاک پر تم کو دے دی گئی
اپنے ہاتھوں سے نرماہٹوں کو چھوئو،
اپنے کانوں کو رس گھولتی روشنی بخش دو
اپنی آنکھوں میں پھیلا دو بس حسن کو
اپنے پائوں کو قالین کی نرم آغوش میں لمس کی راستے پہ روانہ کرو۔
دوستی ۔۔۔رس بھری زندگانی سے بس دوستی۔۔





No comments:

Post a Comment